تحریر : مولانا سید قمر عباس قنبر نقوی سرسوی ۔ نئی دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی। ایامِ حج ہیں لیکن ملّت اسلامیہ مثلِ سالِ گزشتہ حج کی سعادت سے محروم ہے۔ خانہ کعبہ سے جدائی، حضرت نبی اکرمؐ کے روضہ مطہر سے دوری اور جنت البقیع میں مدفون وارثینِؑ پیغمبرؑ اکرمؐ کی قبور اطہر کی زیارت سے محرومی کے احساس نے ملّت کے ہر فرد کو غمگین و غم زددہ بنا دیا ہے اگرچہ حج 2021 میں بھی فرزندگانِ توحید صدائے لبیک بلند کریں گے لیکن انتہائی محدود تعداد میں ۔ صدا ئیں تو بلند ہوں گی لیکن آہوں اور آنسوں میں ڈوبی ہوئی ۔ ہمیں پقین ہے کہ یہ محرومیت وقتی اور عارضی ہے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مدد ونصرت سے جلد ختم ہو جائے گی۔ ان شا اللہ تعالیٰ آئندہ سال ہم سب پہلی جیسی شان و شوکت کے ساتھ فریضہ حج ادا کریں گے۔ البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امسال ہم خانہ کعبہ ،حضرت نبی اکرمؐ اور جنت البقیع میں مدفون وارثینؑ پیغمبرؑ اکرمؐ سے اپنا رشتہ مزید مضبوط کریں۔
آج ملّت اسلامیہ کرونائی بحران کے باعث جہاں ایک طرف اسلامی گلشنِ فرائض کے حٙسین ترین پھول یعنی حج جیسی اعلیٰ ترین عبادت کی ادائیگی سے محروم ہوئی ہے وہیں اس عالمی وبا نے ہمیں غفلتوں سے نجات اور وقت کے صحیح استعمال کا اہم درس بھی دیا ہے ۔ کاش ہم اپنی زمہداریوں کو محسوس کرتے وقت کا دیانتداری سے استفعادہ کرتے تو آج شرمندگی نہ ہوتی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے مُستٙطیعِ حج نے صرف غفلت ، بے توجہگی ، کمزورئ ایمان اور کھوکلی معرفتِ پروردگار کی بنیاد پر ابھی تک اس اہم فریضہ کو ادا نہیں کیا جس کے بارے میں شریعت مطہرہ کا واضع حکم ہے کہ استطاعت کے باوجود حج ترک کرنا گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے حج کے فرض ہونے کے بعد اسے ترک کرنے والے کو مسلمان نہیں قرار دیا آپؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایسے فرد کی موت بھی مسلمان کی موت نہ ہوگی وہ یہودی و نصرانی مرتا ہے۔
ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش ہم بھی حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرتے لیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مالی کمزوری ، جسمانی نقاہت ، خرابی صحت ، حکومتی پابندی یا کسی دوسری بے استطاعتی بنیاد پر حج کی سعادت سے محروم رہتی ہے ۔ مگر اللہ سبحانہ تعالیٰ کا یہ خاص لطف و کرم ہے کہ اُس نے اِن افراد کو بھی حج کے عظیم اور بے نظیر تحفہ اجر و ثواب سے محروم نہیں رکھا ۔ حج کو شہرت و نامواری اور سیر و تفریح کا زریعہ نہیں بنانے والے اگر پورے اخلاص سے ان چند اعمال کو بجا لاتے ہیں ہیں تو ربِ کریم کے فضل سے انھیں مکمل حج و عمرے کا ثواب ملے گا۔
1- اگر کوئی شخص ماہ ذی الحجہ کی پہلی راتوں میں نماز مغربین کے بعد دو رکعت نماز پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد ایک مرتبہ سورہ قُل ھُو اللہ احد تلاوت کرے پھر اس آیت کی تلاوت کرے۔ وَوَاعَدْنَا مُوْسٰى ثَلَاثِيْنَ لَيْلَـةً وَّاَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَـتَـمَّ مِيْقَاتُ رَبِّهٓ ٖ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَـةً ۚ وَقَالَ مُوْسٰى لِاَخِيْهِ هَارُوْنَ اخْلُفْنِىْ فِىْ قَوْمِىْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِــعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ
( سورہ الاعراف 142) تو اس کو حج کا ثواب ملے گا۔
2 - حضرت امام محمد باقرؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب کوئی مسلمان اپنے دینی بھائی ک حاجت روائی اور مدد کے لیے اپنے گھر سے چلتا ہے تو پروردگار پچھتر ہزار مائکہ کو بھیجتا ہے جو اُس کے اوپر سایہ کرے رہتے ہیں۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ اُس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور درجات میں بلندی عطا کر تا ہے۔ نیز جب وہ بندہ خدا اُس مومن کی مدد کردیتا ہے تو رب کریم اُسے کے اعمال میں ایک عمرے اور ایک مقبول حج کا ثواب درج فرما دیتا ہے۔
3- والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک ۔ ایک شخص حضرت رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں مگر اس کی طاقت نہیں ہے آپؐ نے پوچھا تمہارے والدین میں سے کوئی با حیات ہے جواب ملا کہ ہاں میری ماں زندہ ہے ۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا اُنکی خدمت کرو تم حاجی ، معتمر اور مجاہد کہلائو گے۔ آیئے ہم خوشنودئ رب العزت کی نیت سے ان اعمال کو بجا لا کر ثوابِ حج کے مستحق بنیں۔
ہم سب ملکر بارگاہ پرور گار میں حج کی عظمتوں کا واسطہ دعا کرتے ہیں کہ اس وبا و بلا سے تمام دنیا خاص کر کلمہ گویوں سے دور فرما۔ تاکہ تیرا حاجیوں بھرا رہے تیرے گھر کی رونقیں پھر واپس آسکیں ترے نبی اکرمؐ کی قبر مطہر اور اولیاء کی قبور مطہرہ کی زیارات کرنے والوں کا ہجوم ہو سکے۔ معبود تو ہر چیز پر قادر ہے تو قدرت رکھتا ہے اس وبا و بلا کو چشم زدن بلکہ اس بھی کم عرصہ میں دور کر سکتا ہے۔ معبود ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔ تاکہ عازمین آئندہ برس اسی وقار اور شان و شوکت حج ادا کرسکیں ۔